نازک بدن کے واضح اُبھار
سادہ رُخوں پہ ہلکے نکھار
منہ پہ آنچل کی چادر لیے
گود کو اُنکی سرھانا کیے
ظلمتِ زلف کے سائے تلے
بےخبر کب تک یوں لیٹے رہیں ؟

بازارِ حسن کے بےسبب طواف
ہوش پہ نشے کے چڑھائے غلاف
تخیُّل میں مورت مُجسم کیۓ
تصوّر میں اُنکو سامع کیۓ
ہر پل دل کو لُبھائے ہوۓ
بےخیال کب تک یوں جیتے رہیں ؟

جس عشق کی تجھے آس ھے
وہ میری نگاہ کے پاس ھے
اُن راستوں کی مرتی مشعلیں
کبھی میں نے بھی جلائی تھیں
پر دل وہ دیار چھوڑ آیا

میری راہ اب کوئی اور ھے
میرا عشق اب کچھ اور ھے

Sign In to know Author